top of page
Featured Posts
Recent Posts
Archive
Search By Tags
Follow Us
  • Facebook Basic Square
  • Twitter Basic Square
  • Google+ Basic Square

کھلے سگریٹس فروخت کرنے پر پابندی. وفاقی کابینہ

  • Writer: Tajdin Malik
    Tajdin Malik
  • Mar 20, 2018
  • 3 min read

تپ لگسی تے ٹھس کر سی

کھلے سگریٹس فروخت کرنے پر پابندی. وفاقی کابینہ کھلے عام چاہے جتنے مرضی پیئو. پاگل دے پتر، وڈھے قانون دان بلکہ تھک دان.

لعنت ایسے قانون پر جو بن تو گیا مگر اس پرکبھی بھی عمل درآمد نہ ہوا. لعنت ایسے قانون بنانے والوں پر جو قانون بنا کر اپنی قانونی زمہ داریوں سے غافل ہو گئے.

The Prohibition of Smoking and protection of Non-smokers Helth Ordinance, 2002 (LXXIV OF 2002.) کے Sec 5میں درج ہے کہ

No person shall smoke or use tobacco in any other form in any place of public work and use.

Sec - 6 No person shall smoke or use tobacco in any other form in a public service vehicle.

Sec-8 No person shall sell cigarettes or any other smoking substance to any person who is below the age of eighteen years.

Sec- 9 No person shall himself or by any other person on his behalf, Store,, sell or distribute cigarettes or any other smoking substance or any other tobacco products within 50 (fifty) meters from any college, school or educational institution.

10- The owner, or manager or in charge of the affairs of every place of public work use shall display and exhibit a board at each conspicuous place in and out side the premises visited or used by general public prominently stating that the place is a "No Smoking Zone" and that "Smoking is an Offence". جب2002 سے یہ قانون بن چکا ہے کہ کوئی شخص یا اسکا نمائندہ کسی پبلک کام یا استعمال والی جگہ یا پبلک ٹرانسپورٹ میں تمباکو نوشی یا سگریٹس یا تمباکو یا اسے بنی اشیاء فروخت نہیں کر سکے گا. اور یہ کہ سگریٹ یا تمباکو سے بنی اشیاء اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو نہیں بیچی جائیں گیں. اور یہ کسی سکول، کالج یا کسی بھی تعلیمی ادارے سے پچاس میٹر تک کے فاصلے پر تمباکو یا اسے بنی اشیاء بیچی نہیں جا سکیں گی.اور یہ ہے کہ کسی بھی پبلک کام یا استعمال والی جگہ کا مالک، مینجر یا انچارج اپنی ہر ایک جگہ پر Display یا بورڈ کی شکل میں جگہ کے اندر اور باہر یہ لکھ کر لگانے کا پابند ہو گا کہ " سگریٹ نوشی منع ہے اور خلاف ورزی کرنا قانوناً جرم ہے". تو پھر ضرورت نیا قانون بنانے کی نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے /کروانے کی ہے.

زرا سوچیں کہ پاکستان میں وہ کونسا تعلیمی ادارہ، سرکاری دفتر، پبلک پلیس، پبلک ٹرانسپورٹ وہیکل، وکلا کے چیمبرز، تھانہ، کچہری، ہے جہاں آج سرعام سگریٹس نہیں پیئے جاتے اور پچاس میٹرز تو دور کی بات صرف چند فٹ کے فاصلے پر سگریٹس اور تمباکو کی پراڈکٹس سیل اور وہ بھی اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو سیل نہیں کی جا رییں.

حد تو یہ ہے کہ ججز کی موجودگی میں عدالتوں کے دروازے کے ساتھ اور غیر موجودگی میں عدالت کے اندر سائل، وکیل اور عدالتی اہلکار خود اس قانون کا منہ چڑھاتے نظر آتے ہیں. 2016 میں میں نے ہائی کورٹ کے ایک اہلکار کی عدالت کے دروازے پر سگریٹ نوشی کرتے ہوئے تصویر فیس بُک پر وارل کی تھی. ایسے Smokers حضرات کی بیشرمی کی یہ انتہا ہے کہ جب ہم انہیں عرض کرتے ہیں کہ تھوڑا دور ہو کر پی لیں تو ان میں سے کچھ اپنی گھٹیا تربیت مادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کتوں کی طرح بھونکنا شروع کر دیتے ہیں.

پیسہ او جھیڑا پلے، گل اور جھیڑی چلے، رن او جھیڑی تھلے

قانون وہ جسکی implementation ہو، جس پر عملدرآمد نہ ہو وہ قانون نہیں گوبھر کا ڈھیر ہے. اپنی ان حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے حسی، بے بسی اور بیچارگی پر مجھے اپنا انگریز دور کا کشمیری ہاتو یاد آگیا ہے.

انگریز نے کشمیریوں کو فوج میں بھرتی کیا، توپ چلانے کی ٹریننگ دی اور ہاتو کو کہا لو اب ہم دور جا کر بیٹھتے ہیں اور تم اکیلے توپ چلاؤ. کافی دیر ہوگئی جب گولہ چلنے کی کوئی آواز نہ آئی تو افسر نے کہا ساتھیوں پتہ تو کرو کیا وجہ ہے. سپاہی جب آگے بڑھے تو ریکھا کہ ہاتو دور ایک سائیڈ پر بڑے سکون سے بیٹھا ہوا ہے. سپاہیوں نے پوچھا ہاتو توپ نہیں چلائی تو ہاتو نے کہا،

نہ بابا نہ ہاتو توپ نہ چلاسی، تپ لگسی تے ٹھس کر سی. کچھ ایسی ہی حالت ہے ہمارے قانون بنانے والوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی. جسطرح جنرل ضیاع اسلامی قانون کے ساتھ منافق تھا اسی طرح ہماری مقننہ، عدلیہ اور پولیس اپنے بنائے قوانین کے ساتھ منافق، بے حس اور بے بس ہے.

مسجد تو بنا دی شب بر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں سے نمازی بن نہ سکا

یہ بھی ہاتو کی طرح قانون بنانے کے بعد آرام سے ایک سائیڈ پر ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کہ "تپ لگ سی تے ٹھس کر سی"

10 March 2018


 
 
 

Comments


©2018 BY جرأت رنداں. PROUDLY CREATED WITH WIX.COM

bottom of page