لعنت ایسی کمینی سخاوت پر.
- Taj Din Malik
- Apr 28, 2018
- 3 min read

بجٹ 2018-19 میں حکومت نے پینشن کی کم از کم حد چھ ہزار سے بڑھا کر دس ہزار روپے کر دی ہے. اس حکومت کی عقل پر پردہ پڑھ چکا. چھ ہزار یا دس ہزار روپے میں اس دور میں ایک رنڈوے کے گھر کا بجٹ نہیں بن سکتا. دس ہزار روپیہ بجلی، گیس، صاف پانی اور چھوٹی موٹی ادویات پر خرچ ہو جاتا ہے اور اگر مکان کرایہ کا ہو (جسکے 50% چانس ہیں) تو یہ دس ہزار صرف کرایہ کی مد میں ہی چلا جاتا ہے. بچے ہوں تو انہیں یتیم خانے بھیج دو. پنشن کی اس کم از کم حد سے کئی گنا زیادہ ہمارے حکومتی وزار، امرا کے کتوں کا خرچہ ہو گا. ہمارے حکمرانوں نے ملک کو اسلامی جمہوریہ ڈکلیئر کر رکھا ہے اور اسلام اسلام، خدمت عوام کی گردان کرتے نہیں تھکتے. ان بے غیرتوں کے لئے میں سوشل ویلفیئر اسٹیٹ ناروے کی ایک زاتی اور تازہ ترین مثال پیش کرتا ہوں شائد ان بے حسوں کی ملی غیرت والی حس اور نیم مردہ ضمیر جاگ اٹھے. یہ ناروے اسی سیکنڈن ایوین اتحاد کا پاکستان سے آدھے رقبے اور ہمارے ایک شہر کراچی سے بھی آدھی آبادی والا ایک چھوٹا سا ملک ہے جسکے بارے شہید زوالفقار علی بھٹو نے اپنے 1968 کے منشور میں واضح کیا اور وعدہ بھی کیا تھا کہ ہم پاکستان میں بھی سکینڈن ایوین طرز کا سوشل الزم و کیپٹل الزم (ملی جلی معیشت) ہر مبنی معاشی و اقتصادی نظام لائیں گے. آج میں اسی نظام کی ان گنت برکاۃ میں سے صرف ایک کا زکر خیر کرنے جا رہا ہوں. میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ بھٹو شہید کی نیک نیتی اور قوم کے ساتھ خلوص کو سمجھنا چاہتے ہیں انکے لئے بھٹو کا اتنا خلوص ہی کافی ہے کہ وہ اپنی عوام کو سکینڈن ایوین طرز کے سوشل ویلفیئر سسٹم سے مستفید دیکھنا چاہتے تھے. باقی جو نفرت کی حد تک ان سے سیاسی یا فرقہ وارانہ اختلاف رکھتے ہیں انکے لئے تو میرے پاس سوائے دعا کے اور کچھ نہیں ہے. راقم پچیس سال ناروے میں گزار کر 1996 میں یعنی بیس سال پہلے ناروے چھوڑ کر واپس آگیا.پہلے پانچ سال جو میں نے ایک فونڈری میں کام کیا ٹیکس بھی صحیح. معنوں میں اسی دور میں ادا کیا، بعد کے بیس سال تو میں کاروباری لائف میں رہا اور آپکو معلوم ہے کہ کاروباری لوگ یہاں ہوں یا وہاں کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں. سڑسٹھ سال یعنی مارچ 2018 میں میری پینشن شروع ہونا تھی جبکہ میں نے 2017 "میں اپلائی کی جو مجھے اپریل 2018 سے میرے بینک اکاؤنٹ میں آنا بھی شروع ہو چکی ہے. کل جب میں بینک گیا تو ATM خراب ہونے کی وجہ سے میں مینجر صاحب کے پاس گیا تو شکایت کی کہ میرا بیلنس تو ابھی چالیس ہزار ہے مگر مشین پندرہ ہزار بھی نہیں دے رہی. انہوں نے بیلنس چیک کیا تو کہنے لگے آپکا بیلنس تو ایک لاکھ چوالیس ہزار ہے. میں نے ان سے عرض کیا کہ اکاؤنٹ نمبر تو چیک کریں میرا ہی ہے.انہوں نے دوبارہ چیک کیا اور فرمایا کہ آپ ہی کا ہے. پھر میں نے ان سے کہا کہ دیکھیں تو کہیں ناروے سے میری پینش کی ایک لاکھ روپے کے لگ بھگ ٹرانزیکشن تو نہیں آئی، پھر انہوں نے تصدیق کر دی. تو میرے ہموطنو یہ ہے خلفاء راشدین والا سوشل ویلفیئر سسٹم جو زیڈ اے بھٹو شہید بھی پاکستان میں نافذ العمل دیکھنا چاہتے تھے. مگر ان سیاسی بہروپیوں اور حلف توڈ ٹوپی والے خود ساختہ مومنین کو یہ گوارا نہ تھا. ہوتا اگر پاکستان تو بیس سال بعد اور پندرہ ہزار کلو میٹر دور بیٹھ کر ہپنشن جاری کروانا تو درکنار، پنشن جاریہ بھی بند ہو چکی ہوتی.
tag
Comments